کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)




لفظ  ومعنی نے حکایات نے دم توڑ دیا،

بات ہی بات میں ہر بات نے دم توڑ دیا

پارسا پھر سے چلا جانبِ زنداں دیکھو

پھر زلیخا کی مدارات نے دم توڑ دیا

ہچکیاں  لے کے اگلتا رہا وہ خوں شب بھر

آخری ہچکی تھی جب رات نے دم توڑ دیا

میں نہ کہتا تھا ترے بس کا نہیں ہے یہ مریض

دیکھ لے تیری ہدایات نے دم توڑ دیا

کتنی چاہت سے سجائے تھے در و بام مگر

شمع کے ساتھ ہی جذبات نے دم توڑ دیا

ضو فشاں ہوگیا خورشید غمِ تنہائی

شامِ تقریبِ ملاقات نے دم توڑ دیا

یوں تو لاکھوں ہی شکایات تھیں محسن لیکن

پھر ہوا یوں کہ شکایات نے دم توڑ دیا

اکتوبر ۲۰۱۱، کراچی پاکستان

 

 جس وقت یہ غزل لکھی تھی اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ زمین ساغر صدیقی کی ہے لکھنے کے بعد جب سوشل میڈیا پر ارسال کی تو


آخرین ارسال ها

آخرین جستجو ها

معلمان ابتدایی مطالب اینترنتی تحقيق در ادبيات و رويكرد هاي آن از عصر افلاطون تا روزگار ما حس خوش آشنایی اسم فارسی farsiname اخبار روز شهری استاد حسین بغدادی arash68 ارائه ترجمه کتاب های وارکرافت قاتــــــــــــــی & پاتــــــــــــــی